جمعرات، 22 مئی، 2014

جہد للبقا اور بقائے اصلح۔ کیا حقیقت، کیا افسانہ؟ ایک جائزہ

لفظ "جہد" کا مطلب شعوری کوشش، بالارادہ کامیابی کی سعی یا نقصان سے بچاؤ کی دوڑ دھوپ ہے۔ کسی چیز کے لیے جد و جہد صرف وہ کرے گا جو اپنی جد و جہد کے مفادات سے آگاہ ہوگا، اسے معلوم ہوگا کہ وہ فلاں کام کرے گا تو اس سے فلاں فائدہ حاصل ہوگا یا فلاں نقصان سے نجات ملے گی۔ اب اس وجہ سے ہم اس لفظ کا محتاط اطلاق ان پر کرسکتے ہیں جو شعوری کوشش اور سعی کرنے کے قابل ہیں، جیسے انسان۔ عام اطلاق کے لیے اس لفظ کی چادر کو کھینچ کر آپ جانوروں پر بھی ڈال لیجیے جو ہمیں بقا کے لیے اور آزادی کے لیے کوششیں کرتے نظر آتے ہیں، جیسے کسی پنجرے سے نکلنے کے لیے، کسی جال سے آزادی کے لیے وعلی ہذا القیاس۔ لیکن اس لفظ کو جس مطلب میں چارلس ڈارون کے پیروکار اور ارتقا پرستوں نے استعمال کیا ہے وہ عام فہم معانی سے بالکل خارج ہے۔ یہ لفظ اب اپنے عام معانی سے ہٹ کر ایک اصطلاح بن گیا ہے۔ اور اصطلاح بھی ایسی جو بے بنیاد ہے۔ یہ تو ہوئی ایک بات، اس کے علاوہ بھی دیگر وجوہات ہیں جن کی بنا پر یہ اصطلاح اور ساتھ ہی دوسری اصطلاح یعنی "بقائے اصلح" غیرمناسب اور غلط ہیں۔ مثال کے طور پر ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ کونسے جانور اور کونسے نباتات لفظ اصلح کی چھتری کے نیچے آتے ہیں؟ ان کا معیار کیا ہوگا؟ ارتقا پرست کہتے ہیں کہ "اصلح وہ ہیں جو سب سے زیادہ لمبے عرصے تک باقی رہیں" لیکن بغور پڑھنے پر اس بات کا کوئی مطلب ہی نہیں نکلتا۔ کیونکہ اس طرح اس اصطلاح یعنی "بقائے اصلح" کا سیدھا سا مطلب ہے "باقی رہنے والوں کی بقا"۔ ظاہر و باہر ہے کہ یہ ایک تکرارِ لفظی ہے جو در اصل کسی مفہوم کی حامل ہی نہیں، جیسا کہ ایک مایہ ناز فلسفی Karl Popper اور دوسرے ناقدینِ نظریہ نے اس کا گریبان چاک کیا ہے۔ یہ اصطلاح ایسی ہے جیسے یہ کہنا کہ "تمام گوشت خور جاندار گوشت کھاتے ہیں" اسی طرح "باقی رہنے والوں کی بقا" کا معاملہ ہے۔ پھر یہ اصطلاح یہ بتانے سے بھی قاصر ہے کہ آخر وہ کونسے میکانزم ہیں جن کے ذریعے اعلی اور اونچے درجے کہ جانداروں (Higher organisms) کا ظہور زمین پر ہوا۔

ڈارون کے نظریۂ ارتقا کے مطابق "چھوٹے جاندار بہت سارے مختلف انواع و اقسام کے دوسرے جانداروں کی ترقی کا سبب بن کر ان کے وجود کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اچھے انواع و اقسام کے جاندار پھر جہد للبقا میں کامیاب ہوتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ بہت آہستہ آہستہ اور درجہ بدرجہ آگے دوسرے انواع و اقسام کے جانداروں کے وجود کا سبب بنتے ہیں"۔ حالانکہ اس درجہ بدرجہ ظہور پذیر ہونے والے مختلف نوع و قسم کے جانداروں کا کوئی نشان ہمیں فوسل (fossil) ریکارڈ میں میسر نہیں آتا۔ دنیائے حیاتیات میں فوسلز کے قبرستان اس بات کا کھلا ثبوت دیتے ہیں کہ قدرتی آفات اور دوسرے مہلک حادثات جانداروں کی انواع و اقسام کے خاتمے اور نابودگی کا سبب بنے ہیں جو کہ اچانک، غیر متوقع، اجتماعی، دیوہیکل اور ایسے طول و عمق کے تھے کہ جنہوں نے سوائے چند جانداروں کے کسی کو نہیں بخشا۔ ٹرائیلوبائیٹ (Trilobite) جو کہ بہت کامیاب اوراپنے جائے قیام کے لیے مکمل طرح موزوں تھے، اور ڈائنو سارز (Dinosaurs) جنہوں نے میانِ حیاتیہ (Mesozoic era) میں زمین، پانی اور ہوا میں حکومت کی، آخر کار وہ بھی ایک آفت کی نذر ہوکر مکمل طور پر ناپید ہوگئے۔ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جو باقی رہے وہ کمزور، چھوٹے اور قدرے غیر موزوں یا کم موزوں خزندے (Reptiles) جیسے کچھوے، چھپکلیاں اور مگرمچھ تھے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر ایک نیا جاندار درجہ بدرجہ اور آہستہ آہستہ ارتقا پذیر ہوتا ہے تو نئے اعضا بھی آہستہ آہستہ اور درجہ بدرجہ وجود پذیر ہونگے۔ ہڈیاں، پنکھ، سینگ اور دانت ایسی تراکیب کے حامل ہیں جو گلتے سڑتے نہیں ہیں اور محفوظ رہتے ہیں۔ پھر ایسا کیوں ہے کہ فوسل ریکارڈ نئے اعضا کی ارتقا پذیر حالت کا کوئی سراغ، کوئی راستہ نہیں بتاتا کہ یہ اعضا کیسے وجود میں آئے؟ ایسا کیوں ہے کہ اُس نوع کی قدیم ترین فوسل میں بھی اعضا کی درمیانی حالت کا کوئی سراغ نہیں ملتا؟ پرندوں کے قدیم ترین فوسلز میں بھی مکمل بنے بنائے پنکھ ہی ملتے ہیں؟ یہی معاملہ سینگوں، اور دانتوں کا ہے، یعنی قدیم ترین ڈھانچے بھی مکمل طور بنے ہوئے اپنی کامل شکل و صورت میں ملتے ہیں۔

کسی خاص نوع کے جاندار کی درستی اور کامیابی اسکی چھوڑی ہوئی نسبتاً زیادہ وسیع اور کشادہ نسل سے ناپی جاتی ہے، یا پھر نظریۂ ارتقا کے مطابق انکی بہتر موزونیت سے۔ اگر ارتقائی عمل کا مقصد زیادہ اولاد اور بڑی نسل چھوڑنا یا پیداوار کا زیادہ ہونا ہے تو پھر بات بیکٹیریا اور پروٹوزون (Protozoan) سے آگے بڑھنا ہی بے کار ہوجاتی ہے کہ اس معاملے میں وہ بہت آگے ہیں۔

پھر اس بات کا بھی ہمیں کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ نیچے سے اوپر اور غیر ارتقا شدہ سے ارتقا شدہ جانداروں کا تسلسل کسی بھی طرح کسی جاندار کو ماحول اور آب و ہوا کے لیے پہلے سے زیادہ موزوں بنا دیتا ہے۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جاندار اپنی نوع کی مختلف پیچیدگیوں کے مدارج میں ماحول سے بالکل ہم آہنگ اور اس کے حساب سے موزوں ہیں۔ بیکٹیریا، امیبا (Amoeba)، اسفنج (Sponges)، کیڑے (Worms)، مچھلیاں ، حشرات الارض (insects) ، پرندے اور میمل (mammals) تمام کے تمام ہی نہایت عمدگی کے ساتھ اپنے ماحول اور اپنی جائے قیام کے حساب سے مکمل طور پر موزوں ہیں، جبکہ ان میں اپنی نوع کے اعتبار سے پیچیدگیوں (complexities) کے مدارج میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

اب اس کے بعد یہ سوال بھی ہے کہ ہجرت کے ایسے کونسے منتخب کردہ فوائد قابلِ ذکر ہیں جو سامن اور دوسری ہجرت کرنے والی مچھلیوں میں نظر آتے ہیں انہیں ان مچھلیوں سے زیادہ موزوں بنادیتے ہیں جو مچھلیاں ہجرت نہیں کرتیں اور اپنے وطن میں ہی ہمیشہ بسیرا کرتی ہیں؟ اسی طرح حشرات الارض میں ایسے جاندار کیوں ہیں جو روپ بدل کر اپنے حملہ کرنے والے کو دھوکہ دیتے ہیں یعنی camouflage insects؟ جبکہ دوسرے حشرات بغیر کسی ممکری (Mimicry) کے بھی اپنی جگہ جی رہے ہیں؟ یہ اور ایسے دوسرے بہت سارے سوالات بہت پہلے سے موجود ہیں، لیکن ارتقا پرستوں پر یہاں آکر موت جیسی خاموشی طاری ہوجاتی ہے۔ اور افسوس اس بات کا ہے کہ ڈارون کے نظریۂ ارتقا کے وجود میں آنے کے بعد بے شمار مباحث و مکالمات اس نظریے کی خرابیوں پر اور اس کی کمزوریوں پر ہوچکے ہیں، لیکن ارتقا پرستوں نے بہت سے معقول سوالات پر ایسی چپ سادھ لی اور سوالات کو ایسا ہضم کرگئے گویا قالین کا کچرا اٹھا کر اسی قالین کے نیچے دبا دیا۔

مجھے اب بھی یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آخر وہ کونسے ماحولیاتی انتخاب کے فوائد ہیں جن کے نتیجے یا جن کی ضرورت پر Comacchio کی برقی بام مچھلیاں (eels) خطرات سے کھیل کر Sargasso Sea پہنچتی ہیں۔ یا Ascaris کو اپنے ہوسٹ کے پورے جسم میں سیر کرنے کی ضرورت کیوں پڑتی ہے بجائے اس کے کہ وہ انتڑیوں میں آرام سے بیٹھا رہے جہاں سے اس کا اصل تعلق ہے۔ یا پھر کچھ حشرات الارض کو اپنے رنگ بدلنے کی صلاحیتوں کو ترقی دینے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر کہا جائے کہ یہ تحظ کے لیے ایک اقدام ہے تو پھر سفید پنکھوں والی تتلی (Cabbage Butterfly) کا کیا جو اپنے نمایاں اور سفید پنکھوں کے ساتھ بھی نسبتاً ان دوسرے حشرات سے بہت زیادہ تعداد میں پائی جاتی ہے؟ [1] لیکن ارتقا پرستوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

؎ جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے


جب کوئی ٹید پول (Tadpole) انڈے سے نمودار ہوتا ہے اس وقت وہ یہ شعور نہیں رکھتا کہ اپنی بقا کے لیے جد و جہد کر سکے اور جب کوئی بھوکا مگر مچھ یا کوئی مچھلی یا کوئی دوسرا پرندہ اسے کھانے کے لیے آجاتا ہے تو یہ مرحلہ بس اب صرف ایک اتفاق ہی بن جاتا ہے کہ وہ کس جانب سے آئے گا۔اس شکار خور اور نسبتاً بہت بڑے اور طاقت ور دشمن کے سامنے ٹیڈ پول کی طاقت، اس کی پھرتی، اس کی ماحول کے ساتھ ہم آہنگی یا درستی وغیرہ سے حقیقت میں کوئی فرق نہیں پڑتا، اس صورت میں طاقت ور اور کمزور سارے ہی ایک ساتھ اپنے دشمن کے منہ کا نوالہ بن جائیں، اور ٹیڈ پول سے مینڈک تک کے سفر کو بقا کے ساتھ طے کرنے والے شاید پچاس ہزار میں سے دو ہی ہوں، اور وہ بھی اصلح نہیں، بلکہ خوش قسمت، کیونکہ جسمانی طاقت، خطرے سے آگہی، بیماری کے خلاف قوتِ مدافعت اور اس جیسی دوسری خوبیاں بقا کے لیے اور بھوکے دشمن سے بچاؤ کے لیے کافی نہیں ہیں۔ اور اس بات کا اطلاق تمام جانداروں پر ہوتا ہے جن کی پیداوار نسبتاً اس سے کہیں زیادہ ہوتی جتنی تعداد میں وہ بلوغت کی عمر تک باقی رہتے ہیں، کیونکہ ان کی آبادی کی بقا کے لیے مجموعی طور پر قدرت نے ایک توازن قائم کر رکھا ہے۔ اس میں طاقت ور اور کمزور دونوں غذا کے لیے شکار بن کر کسی کے منہ کا نوالہ بنتے ہیں تاکہ آبادی ایک توازن کے ساتھ قائم رہے۔

قدرتی آفات جیسے آتش فشاں، سیلاب، طوفان، زلزلے، بگولے اور طوفانی بارشیں وغیرہ پوری پوری آبادیوں کو تباہ کردیتی ہیں، ان کے نام و نشان تک مٹ جاتے ہیں۔ صرف وہ بچتے ہیں جو قسمت والے ہوتے ہیں. کار، ریل گاڑیوں اور ہوائی جہازوں کے حادثات میں طاقت ور اور کمزور دونوں ساتھ ہی مرتے ہیں۔ دوسری جانب جنگ صرف جوان اور طاقت ور لڑا کرتے ہیں اپنی قوم کو بچانے کے لیے۔ اس صورتحال میں صرف اور صرف وہ لوگ مارے جاتے ہیں جو اصطلاح کے مطابق اصلح ہونے کے حقیقی مصداق ہیں۔ انسان کے بنائے ہوئے بم اور دوسرے قاتل ہتھیار کمزوروں اور طاقتوروں کی صرف راکھ ہی چھوڑتے ہیں۔ ہیروشیما اور ناگا ساکی کو کون بھول سکتا ہے؟ اور کون یہ کہہ سکتا ہے کہ جاپانی قوم کے لوگ ماحول کے لیے موزوں نہیں تھے یا جو مارے گئے وہ جہد للبقا کے قابل نہیں تھے؟ یہی مسئلہ نباتات کا بھی ہے۔ نباتات میں اکثر ایسے ہیں کہ وہ جن عناصر کے محتاج ہیں وہ عناصر ہی ان کے قابو میں نہیں ہیں، جیسے پانی کی فراہمی، سورج کی روشنی کی فراہمی، زمین یا مٹی کی قسم، مویشی جانور وغیرہ۔ یعنی صرف بیجوں کی درستی اور سلامتی ہی نہیں ہے جسے دیکھا جائے گا۔ آس پاس کا ماحول، لوگ اور دوسرے عناصر کا تعامل بھی زیرِ غور رکھنا ضروری ہے، اور ان سب عناصر میں سے کسی کی بھی اہمیت کسی دوسرے سے کم نہیں ہے، کیونکہ یہ سب مل کر نباتات کے کامیاب نشونما میں ایک واضح اور غیر مبہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ اس بات پر بحث کریں کہ جب ایک ہی صنف (species) کی مختلف ویرائٹی (Variety) یا مشترکہ اصناف کے بیجوں کو ایک ہی صورتحال میں، ایک ہی زمین میں، اور ایک ہی طرح کی شمسی توانائی میں بویا جاتا ہے تو اس میں کچھ ویرائیٹیز ایسی ہوتی ہیں جو دوسروں سے بہتر اگتی ہیں۔ لیکن یہاں اس صورت میں بھی نیچے سے اوپر اور غیر ارتقا شدہ سے ارتقا شدہ والا مسئلۂ نظریۂ ارتقا حل نہیں ہوتا۔ یہ بات صرف اتنا بتاتی ہے کہ کسی خاص صورتحال میں صنف اول اچھے سے نشو نما پاتی ہے، اور دوسری صورتحال میں صنف دوم۔ اس بات کا کوئی ثبوت ہی نہیں ہے کہ کامیاب انواع و اقسام اپنے سے اونچے درجے کی انواع و اقسام کے ارتقا کا سبب بنتے ہیں۔ تو سوال یہ کہ یہ مختلف انواع و اقسام کا یہ تقابل اور جد و جہد ہمیں کہاں پہنچا رہا ہے؟کچھ نباتات ایسے ہیں جو مختلف قسم کی خوشبوئیں اور کیمیکل خارج کرتے ہیں جن کے ذریعے مختلف انسیکٹس ان نباتات کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں، ان سے غذا بھی حاصل کرتے ہیں اور نتیجے میں اس پودے کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹر مورس بوکائے نے اس حوالے سے دو کیس بیان کیے ہیں، ایک نباتات کے اور دوسرا حیوانات کے متعلق ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ:
"یہ ایک نمایاں حقیقت ہے کچھ کونیفر (Pinophyta) کے پودے ایسے کیمیکل بناتے ہیں جو coleoptera یعنی بیٹل (Beetle) کو اپنی طرف کشش کرتے ہیں اور آخر کار بیٹلز ہی ان پودوں کو کھا جاتی ہیں۔ قدرت کا انتخاب (Natural Selection) یہاں اس پودے کو بچانے میں اور اس کی بقا میں کوئی کردار نہیں ادا کرتا۔
اسی طرح این ٹی لوپ (Antelope) جو ہرن کی ایک قسم ہے وہ اپنے بقا کے لیے اپنی تیز رفتار کا سہارا لیتی ہے، اس کے باوجود ان کی کچھ اقسام ایسی ہیں جن کے کُھروں میں گلینڈ ہوتے ہیں جو ایک قسم کی خوشبو خارج کرتے ہیں جو بھاگتے ہوئے ان کے پاؤں سے زمین پر لگتی جاتی ہے۔ تقریباً تمام گوشت خور جانور اسی خوشبو کے ذریعے ان کا پیچھا کرتے کرتے اپنے شکار کو پکڑ لیتے ہیں. اس طرح ڈارون کے نظریے کے مطابق ہماری خوب رو ہرنیاں بے یار و مددگار رہ جاتی ہیں"۔ [2]

جانداروں کی کمیونٹیز اور ان کی آبادیوں کے تازہ مطالعے اور مشاہدے کے نتیجے ایک اور حقیقت آشکار ہوتی ہے، اور وہ یہ کہ جانداروں کے درمیان اس سے کہیں زیادہ باہمی تعاون، آپس میں ایک دوسرے کی مدد کا عمل پایا جاتا ہے جتنا کہ ہم کچھ دھائیاں قبل سمجھتے تھے کہ ہوگا۔ باہمی ہم آہنگی، تعاون اور طفیلیت (Parasitism) وغیرہ ایسی چیزیں ہیں کہ جن کی وجہ سے ایک جاندار کو دوسرے کی احتیاج ہوتی ہے۔ پختہ اور پائدار کمیونٹی پائدار ہی اپنی آپس کی محتاجی اور باہمی انحصار کی وجہ سے ہوتی ہے۔ انسیکٹس کے بہت سے گروپ جیسے مکھیاں (Bees)، چیونٹیاں (ants)، اور واسپ (wasps) وغیرہ میں باقاعدہ منظم معاشرے قائم ہیں جس میں مختلف کام اور ذمہ داریاں معاشرے کے مختلف افراد میں منقسم ہوتے ہیں۔ ان کا طریقۂ زندگی، ان کی موجودگی ایک عجیب پیچیدہ نظام کے تحت چل رہی ہے۔ انکی بقا بلا کم و کاست ان کے باہمی انحصار پر مبنی ہے۔ ایک ہی ریوڑ کے پرندے، میملز اور مچھلیاں وغیرہ آپس میں یکجان ہونے کا مظاہرہ کرتے ہیں تاکہ ان میں آپس میں ایک دوسرے کو زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل ہوسکیں، طاقتور اور اچھی صحت والے کمزوروں اور لا چاروں کی مدد کرتے ہیں، ان کی بقا کا سبب بنتے ہیں، جیسا کہ میملز کی مختلف آبادیاں زیرِ مشاہدہ ہیں۔ G.R Taylor نے لکھا ہے کہ : "ڈارون نے یہ فرض کرلیا تھا کہ ایک نوع کے جاندار دوسری نوع کے جانداروں سے تقابل میں ہونگے، یا پھر ایک نوع کے مختلف جاندار آپس میں ایک دوسرے کے مقابلے میں ہونگے. جو جانور زیادہ تیز دوڑے گا وہ اپنے تعاقب کرنے والے سے بچ نکلے گا، یا جو زیادہ اچھا لڑے گا وہ زندہ رہے گا، یا جس میں دوسری خوبیاں زیادہ ہونگی وہ باقی رہے گا اور اپنے پیچھے بڑی نسل چھوڑے گا اور اس نسل میں بھی ان تمام خوبیوں کی جینز موجود ہونگی۔ مگر حقیقت میں یہ آفاقی تقابل کا نظریہ بے بنیاد ہے۔ ڈارون کی اپنی مثال بھیڑیا اور ہرن کی تھی، اس نے سوچا کہ سب سے تیز دوڑنے والا بھیڑیا ہرن کو مار کر اس کا گوشت کھا لے گا۔ لیکن حقیقت میں بھیڑیے جھنڈ میں شکار کرتے ہیں اور گوشت کو آپس میں بانٹ کر کھاتے ہیں۔ اسی طرح جیسا کہ ایک آسٹرین ایتھولوجسٹ کانریڈ لارینز نے بتایا ہے کہ مختلف انواع کی مچھلیاں اپنے قرب و جوار کے کورل ریف (coral reef) سے غذا حاصل کرتی ہیں، لیکن بغیر کسی تنازع اور تقابل کے۔ مزید بر آں فرانس کے ماہرِ حیاتیات پروفیسر Grasse نے تقابل و تنازع کی حیثیت اور مثالوں کو فرانسیسی تتلیوں (French Butterflies) میں دیکھنے کی اور سمجھ نے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے"۔ [3]

پیٹر کروپوٹکن نے سلسلہ وار آرٹیکل لکھے ہیں جو "Mutual aid: a factor in Evolution" کے نام سے شائع ہوئے۔ انہوں نے اس میں اپنے مشاہدات لکھے ہیں جو جنگلوں میں مختلف جانداروں کی زندگی اور ان کے رہن سہن کے حوالے سے ہیں۔ ان کے مطابق بقا کی جد و جہد مشکل ہی سے کہیں پائی جاتی ہے۔ اس کے بر عکس جانوروں میں بقا کا تعلق انکی آپسی کو آپریشن اور میوچول ایڈ سے ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قدرت کی فطرت میں وہ وحشی پن موجود نہیں جیسا کہ ڈارون نے بتایا تھا۔ بلکہ نیچر میں پہلو دار اور پیچیدہ رشتے پائے جاتے ہیں جو جانداروں کی بقا کا سبب بنتے ہیں۔ ڈارون نے اس سب نظام کے صرف ایک ہی پہہلو کو دیکھ کر اس کا بت تراشنے کی کوشش کی تھی جس کی وجہ سے اس نے ایسا مفروضہ پیش کیا جس میں آفاقیت نہیں پائی جاتی بلکہ وہ مفروضہ در حقیقت جانب داری متعصب معلومات کی نذر ہوگیا۔

قدرتی طور پر جو آبادیاں تشکیل پاتی ہیں ان کے قوانین ان نظریات یعنی جہد للبقا اور بقائے اصلح سے بہت مختلف ہیں۔ اس ماحول اور آب و ہوا میں موجود مختلف جانداروں مثلاً جانور اور نباتات کی آبادیاں متوازن رکھنے میں مختلف عوامل کارفرما ہوتے ہیں:
الف) شکاری جانور اور خود شکار کا آپسی رشتہ انکی تعداد کو قابو میں رکھتا ہے۔ شکاری جانوروں کی تعداد میں کمی بیشی شکار کی تعداد میں کمی بیشی کے قریب ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر: لومڑی (fox) اور چوہے (lemming) کی تعداد۔ اسی طرح snowshoe hare اور lynx کی آبادی۔ اس کے علاوہ مینڈک، چوہے اور ان کے شکاری جانوروں کی تعداد ہے۔ اس مکمل سلسلے میں پودے، کیڑے، حشرات، پرندے اور حیوانات سب آجاتے ہیں جو آپس میں ایک دوسرے کی آبادی کی وسعت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ بات میں نے پہلے ہی واضح کردی ہے کہ ہمیشہ کمزور نہیں مارا جاتا، مارے جانے میں در حقیقت اتفاق پر مکمل انحصار ہوتا ہے کہ کونسا شکار شکاری کی زد میں کس وقت آجائے۔
ب) بہت زیادہ آبادی بھی مختلف جانداروں پر برے اثرات چھوڑتی ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق Snowshoe hare کی بڑی آبادی ہونے پر ان میں اکثریت کے جگر خراب ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ نتیجتاً ان کی ایک بڑی تعداد کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔
ایک دوسری تحقیق کے مطابق House mice جب تعداد میں زیادہ ہوجاتے ہیں تو وہ دوسرے گھروں میں ہجرت کر جاتے ہیں۔ اور اگر ہجرت نہ کریں تو ان کی پیداوار رک جاتی ہے۔ [4]

ہر تین سے چار سال بعد Lemmings کا خود کش مارچ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ یہ تب ہوتا ہے جب لیمنگز کی تعداد بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ ان میں جسمانی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جو انہیں مجبور کرتی ہیں کہ بڑی تعداد میں ہجرت کریں۔ اس دوران سوائے چند کے تمام لیمنگز اسی سفر میں مارے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے یہاں بھی بقا صرف قسمت والوں کی ہوتی ہے، اصلح کی نہیں۔ اور جو باقی رہتے ہیں ان کی تعداد تین سے چار سال میں پھر سے اتنی ہوجاتی ہے کہ انہیں ہجرت کرنی پڑتی ہے۔

سمندری جانور بھی ایسے سائکل سے گزرتے ہیں جب ساحل کے اطراف میں دوسرے سمندری جانوروں کی لاشیں زیادہ تعداد میں ہوجاتی ہیں۔ [5] مقصد یہ ہے کہ جب کسی خاص انواع کے جانداروں کی تعداد دوسرے جانداروں سے بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے تو قدرت خود ان پر کلہاڑی گراتی ہے اور قدرت کا طریقہ کچھ بھی ہوسکتا ہے جس میں صرف کمزور نہیں بلکہ ہر قسم کے جاندار مارے جاتے ہیں۔

حوالہ جات:

1. Bertalanffy, L. Von, "Chance or Law" in Koestler. A and Smythies. J.R. (eds.) Beyond reductionism, Radius Books, Hutchinson, London, Page 65.

2. Bucaille, Maurice. What is the Origin of Man?, Seghers, Paris, Page 4.

3. Taylor, Gordon Rattray. The great evolution mystery, Secker and Warburg, London, Pages 31-32.

4. Farb. Peer & The Editor of Life, Ecology, Page 147.

5. Ibid., Page 148.